اسٹیٹ بینک نے پین کی تحریروا لے نوٹوں سے منسوخی سے متعلق بعض مین اسٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا پرچلنے والی خبروں کی تردید کر دی ، ترجمان اسٹیٹ بینک کے مطابق تحریر والے نوٹوں سے متعلق حالیہ دنوں میں کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق اس حوالے سے 2014 میں کی جانے والی ہدایت تاحال لاگو ہیں ۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956ء اور 2008ء کے مطابق ایسے کرنسی نوٹ قابل قبول نہیں جن کے اوپر لکھی گئی تحریر سے نوٹ کے مندرجات مسخ ہوجائیں یا انہیں پڑھنا ممکن نہ رہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2014 میں اسٹیٹ بینک نے کون سی ہدایت جاری کیں اور اسکی ضرورت کیوں پیش آئی ۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 2014میں حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کر تے ہوئے کارکنوں کو ہدایت کی تھی کہ اشیاء کی خریداری سے قبل نوٹوں پر “گو نواز گو”تحریر کریں ۔ اس مہم کے آغاز کے بعد اسٹیٹ بینک نے باقائدہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایساکوئی بھی نوٹ جس پر کسی قسم کی تحریر لکھی ہو گی ،قبو ل نہیں کیا جائیگا اور اس نوٹ کی قدر ختم ہو جائے گی ۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق یہ قانون موجود ہے کہ اگر روپےپر پین کا کوئی نشان ہو،قائد اعظم کی تصویر پر پین کا استعمال کیا گیا ہو یا نوٹ پر نعرے یا کسی بھی قسم کی کوئی تحریر ہو گی توایسے نوٹ اپنی قدر کھو دیں گے۔ اور کرنسی نوٹ کے صفر ہونے پر بینک اس نوٹ کولینے کا مجاز نہیں ہو گا۔ اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کو بھی ایسے نوٹ وصول نہ کرنے کی ہدایت کی تھی
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے اعلامیے کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے نوٹوں پر سیاسی نعرے لکھنے کی مہم ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اور کارکنوں کو سوشل میڈیا خاص طور پر ہر ایس ایم ایس کے اخٹتام پر گو نواز گو تحریر کرنے کی ہدایت کی تھی ۔
نوٹوں پر تحریر کی یہ مہم پہلی نہیں تھی بلکہ آج سے تقریبا 65 برس قبل بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کے بانی رہنما، میر غوث بخش بزنجو نے بھی 100 روپے مالیت کے نوٹ پر ’بریک اپ ون یونٹ‘ لکھنے کی مہم شروع کی تھی۔
سنہ 1960ء کے وسط میں شروع کی جانے والی اس مہم کے خلاف ڈسٹرکٹ اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں باقاعدہ جرگہ ترتیب دیا گیا جس نے بزنجو کو 14سال قید کی سزا سنائی تھی۔