پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے جامعہ کراچی میں ہزاروں طلبہ روزانہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں، مگر افسوس کہ ان کا یہ سفر اکثر خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ یونیورسٹی کی پوائنٹ بسیں، جو کبھی طلبہ کی سہولت کے لیے فراہم کی گئی تھیں، آج اپنی خستہ حالی کی داستان خود سنا رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں جامعہ کراچی میں ایک افسوسناک حادثہ پیش آیا، جب ایک طالبہ پوائنٹ سے اترتے وقت بس کے پہیوں تلے آ کر جاں بحق ہوگئی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق طالبہ نے ڈرائیور کو اطلاع دیے بغیر اترنے کی کوشش کی، مگر بس کی حرکت کے دوران وہ گر گئی۔ اس واقعے نے نہ صرف طلبہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی غفلت کو بھی بے نقاب کر دیا۔
اگر ان پوائنٹس کی موجودہ حالت دیکھی جائے تو صورتحال دل دہلا دینے والی ہے۔ بیشتر بسیں 1980 کی دہائی کی ہیں، جو آج بھی مرمت کے بغیر چلائی جا رہی ہیں۔ کئی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں، سیٹیں پھٹی ہوئی ہیں، دروازے ٹھیک طرح سے بند نہیں ہوتے اور چھتوں سے پانی ٹپکتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ بسوں کے ڈرائیونگ ایریاز بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان بسوں میں کسی قسم کا ریورس کیمرا یا جدید حفاظتی نظام نصب نہیں، حالانکہ ٹریفک پولیس سندھ کی جانب سے واضح ہدایات موجود ہیں کہ تمام گاڑیوں کی فٹنس کلیئرنس اور حفاظتی آلات مکمل ہوں۔ لیکن جامعہ کراچی کی یہ
پوائنٹس اس بنیادی معیار پر بھی پوری نہیں اُترتیں۔
یونیورسٹی میں ہر سال تقریباً 47 ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہوتے ہیں، مگر ان کے لیے صرف 30 پوائنٹ بسیں دستیاب ہیں، جن میں سے اکثر ناقابلِ استعمال حالت میں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک بس میں ضرورت سے کہیں زیادہ طلبہ سوار کیے جاتے ہیں، اور اکثر یہ طلبہ کراچی کی سڑکوں پر یونیورسٹی پوانٹ کے دروازوں میں لٹک کر سفرکرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ جو کسی بھی لمحے ایک اور المیے کا باعث بن سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا حکومتِ سندھ کی جانب سے جامعہ کراچی کی بسوں کی اس خستہ حالی کی خبر لیمے والا کوئی نہیں؟ اگر ان بسوں کی یہی حالت رہی تو آنے والے دنوں میں مزید حادثات کا خدشہ رد نہیں کیا جا سکتا۔
جامعہ کراچی جیسے معتبر ادارے میں جہاں ہزاروں طلبہ کے والدین اپنے بچوں کو اس توقع کے ساتھ بھیجتے ہیں کہ وہ نہ صرف معیاری تعلیم فراہم کرے بلکہ اپنے طلبہ کو محفوظ سفری سہولتیں بھی دے۔ مگر موجودہ منظرنامہ اس کے برعکس ہے ، ایک ایسا نظام جو خاموشی سے طلبہ کی جانوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
جامعہ کراچی کے پوائنٹس کی یہ بوسیدہ حالت نہ صرف انتظامیہ بلکہ سندھ حکومت کے لیے بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر اب بھی اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے تو خدانخواستہ آئندہ کسی حادثے کا ذمہ دار کون ہوگا؟