قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے 14ویں اجلاس سے متعلق خبروں پر وضاحت جاری کرتے ہوئے بینک دولتِ پاکستان (SBP) نے کہا ہے کہ 2018 میں ورچوئل اثاثہ جات (Virtual Assets) سے متعلق جاری کردہ ہدایت کا مقصد انہیں غیر قانونی قرار دینا نہیں تھا، بلکہ اس وقت ملک میں ان اثاثہ جات کے لیے کسی قسم کا قانونی یا ضوابطی فریم ورک موجود نہیں تھا۔
اسی لیے اسٹیٹ بینک نے اپنے زیرِ ضابطہ اداروں، جن میں بینک، ترقیاتی مالیاتی ادارے (DFIs)، مائیکروفنانس بینکس (MFBs)، الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشنز (EMIs)، پیمنٹ سسٹم آپریٹرز (PSOs)، پیمنٹ سروس پرووائیڈرز (PSPs)، اور ایکسچینج کمپنیاں شامل ہیں، کو ورچوئل اثاثہ جات سے گریز کی ہدایت کی تھی۔ یہ اقدام اس لیے کیا گیا تاکہ ان اداروں اور ان کے صارفین کو ان خطرات سے محفوظ رکھا جا سکے جو قانونی و ضابطہ جاتی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہو سکتے تھے۔
مزید پڑھیں؛کرپٹو کرنسی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، وزارت خزانہ
مزید برآں، اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ اس وقت وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کردہ پاکستان کرپٹو کونسل کے ساتھ مل کر ایک موزوں قانونی اور ضوابطی فریم ورک کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔
اس عمل کا مقصد نہ صرف ورچوئل اثاثوں سے متعلقہ پالیسی کی وضاحت فراہم کرنا ہے بلکہ سرمایہ کاروں اور صارفین کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہے۔
آخرکار، اسٹیٹ بینک کا مؤقف ہے کہ یہ نیا فریم ورک ڈیجیٹل اثاثوں کے شعبے میں شفافیت، اعتماد، اور قانونی تحفظ کو فروغ دے گا، جس سے معیشت میں ایک مثبت پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔