سندھ حکومت کے کفایت شعاری کے دعووں کے برعکس صوبے کے 6 کمشنرز اور 29 ڈپٹی کمشنرز(ڈی سیز) کے لئے 52 کروڑ 66 لاکھ 70 ہزار روپے کی لگژری گاڑیوں کی خریداری کے لئے محکمہ خزانہ نے رقم جاری کردی ہے، جبکہ 138 اسٹنٹ کمشنرز (اے سیز) کی تقریباً 2 ارب روپے کی لگژری گاڑیوں کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونےکی وجہ زیر التوا ہے۔
حکومت سندھ کے سال 2024ء میں صوبے کفایت شعاری کے دعوے برعکس سندھ کابینہ کی منظوری کے بعد محکمہ خزانہ سندھ نے 15 اپریل 2025ء کے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق 6 ڈویژنز کراچی، حیردآباد، لاڑکانہ، میرپور خاص، شہید بے نظیر آباد اور سکھر کے 6 کمشنرز کی 6 گاڑیوں کے لئے 10 کروڑ 80 لاکھ 84 ہزار روپے جاری کئے گئے ہیں، ہر کمشنر کو ایک کروڑ 80 لاکھ 14 ہزار روپے کی فارچونر (4X4) ڈیزل 2755 سی سی اور 29 ڈپٹی کمشنرز (ڈی سیز) کی 29 نئی گاڑیوں کے لئے 41 کروڑ 65 لاکھ 86 ہزار روپے کا بجٹ جاری کردیا ہے۔ ہر ڈپٹی کمشنر کو ایک کروڑ 44 لاکھ 34 ہزار روہے کی ہائی لکس روکو (4X4) 2755 سی سی ڈیزل گاڑی خریدی جائے گی۔ تمام گاڑیاں انڈس موٹرز کمپنی لمیٹیڈ سے خریدی جائیں گی۔ خط میں یہ وضاحت بھی جاری کی گئی ہے کہ ڈپٹی کمشنرز کی فہرست میں ضلع کیماڑی شامل نہیں ہے۔
خط میں کابینہ کی کفایت شعاری کمیٹی کے اجلاس 7 جنوری 2025ء و 15 جنوری 2025ء اور صوبائی کابینہ کے 27 فروری 2025ء کے اجلاس ایجنڈا آئٹم نمبر 29 کی منظوری کا حوالہ دیکر بتایا گیا ہے کہ فنڈز کی منظوری کابینہ اجلاس اور آڈٹ کلیئرنس کے بعد کمپنی کو جاری کردئے گئے ہیں۔
دوسری جانب صوبہ بھر میں اسسٹنٹ کمشنر کے لیے 138 لگژری ڈبل کیبن (4X4) گاڑیوں کی خریداری کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کے لیے محکمہ خزانہ کو خط لکھا گیا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے رقم کے اجراء کا معاملہ زیر التویٰ ہے۔
حکومت سندھ نے ستمبر 2024ء میں کفایت شعاری مہم کے نام پر حکومتی اخراجات میں کمی دعویٰ کیا تھا، لیکن افسران کے لئے اتنی بڑی رقم سے لگژری گاڑیوں کی خریداری حکومتی دعووں کے متصادم ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ایک ہفتے کے دورے پر امریکا روانہ ہونے سے قبل اس ہفتے کے شروع میں اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیوں کی خریداری کی سمری کی منظوری دی تھی۔
مالی مشکلات کی وجہ سے حکومت سندھ نے مالی سال 2024ء-2025ء کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت کوئی نیا منصوبہ شروع کرنے سے گریز کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ متعلقہ سرکاری اداروں کے پاس پہلے سے لگژری گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور یکمشت اتنی گاڑیوں کی خریداری خزانے پر غیر ضروری بوجھ ہے۔
