ہر شخص کا بچن خوبصورت اور معصومیت سے بھر ہو تا ہے ، شرارتیں اور معصوم حرکتیں جنہیں یاد کر کے اکثر ہمارے والدین اور بزرگ لطف اندوز ہو تےہیں مگر وہ باتیں ہمیں کیوں یاد نہیں رہتی حالانکہ وہی سال ہمارے سیکھنے اور نشوونما کے سب سے اہم ہوتے ہیں۔
نئی تحقیق کیا کہتی ہے؟
سائینس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ییل یونیورسٹی کے محققین نے حال ہی میں ماضی کے نظریے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارا دماغ ان یادوں کو محفوظ نہیں کرتا بلکہ ہم ان تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔
تحقیق میں چار ماہ سے دو سال تک کے 26 بچوں کو مختلف اشکال، اشیاء اور مناظر کی تصاویر دکھائی گئیں۔ بعد میں، جب ان بچوں کو وہی تصاویر دوبارہ دکھائی گئیں اور محققین نے ان کے ردِ عمل کا مشاہدہ کیا۔
تحقیق کے نتائج
محققین نے فنکشنل میگنیٹک ریزونینس امیجنگ کے ذریعے بچوں کے ہپوکیمپس کی سرگرمی کو ناپا۔ نتائج سے پتہ چلا کہ جن بچوں میں ہپوکیمپس زیادہ متحرک تھا، وہ بعد میں انہی تصاویر کو زیادہ دیر تک دیکھنے کا رجحان رکھتے تھے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہپوکیمپس ابتدائی عمر میں ہی یادداشت کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ہم اپنی ابتدائی یادیں کیوں بھول جاتے ہیں؟
پروفیسر ٹرک براؤن کے مطابق، ایک امکان یہ ہو سکتا ہے کہ یہ یادیں طویل مدتی میموری میں تبدیل نہیں ہوتیں۔ تاہم، ایک اور نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ یادیں محفوظ رہتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم ان تک رسائی کھو دیتے ہیں۔
کیا ابتدائی یادوں کو واپس لایا جا سکتا ہے؟
ییل یونیورسٹی کی تحقیق جاری ہے، اور ماہرین یہ جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ابتدائی تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ یادیں پری اسکول کی عمر تک برقرار رہ سکتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مدھم ہو جاتی ہیں۔