پاکستان کے معاشی حب کراچی کو جدید ترین سہولیات سے آراستہ کرنے اور مستقبل کی مصوبہ بندی کے لئے “گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء” کے نام سے آٹھویں اور قیام پاکستان کے بعد چھٹے “کراچی ماسٹر پلان” کی منصوبہ بندی شروع کی گئی ہے، جو اگست 2026ء تک تقریباً 2 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والی تھی تاہم تاخیر سے کا شروع ہونے کی وجہ سے اسٹڈی 2027ء کی ابتدا تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔ کراچی ماسٹر پلان 2047ء کا بنیادی مقصد 2050ء تک کراچی کے تمام لوگوں کو ضروریات کے لئے انتظام و انصرام کرنا ہے۔
کراچی کی آبادی مردم شماری 2023ء کے مطابق 2 کروڑ 4 لاکھ افراد ہے اور سالانہ شرح اضافہ 4.1 فیصد ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی تناسب سے آبادی میں اضافہ جاری رہا تو 2050ء تک کراچی کی آبادی سوا 4 کروڑ افراد تک پہنچ جائے گی۔
ماضی کے ماسٹر پلان!
“گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء” کراچی کا پہلا نہیں بلکہ گزشتہ 100 سال کے دوران کا آٹھواں منصوبہ ہے۔ پہلا منصوبہ 1923ء میں برطانوی دور میں تیار کیا گیا اور یہ واحد ماسٹر پلان ہے جس پر کافی حدتک عمل ہوا، مگر قیام پاکستان کے بعد پاکستان پہلا دارالحکومت انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے آبادی کے دبائو اور شہر کے پھیلائو کو برداشت نہ کر سکا۔ جس کی وجہ سے 1948ء اور 1952ء کے ماسٹر پلانوں کے ذریعے صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کامیابی نہ مل سکی۔ 1974ء میں چوتھے ماسٹر پلان کے ذریعے ایک نیا خاکہ تیار کیا گیا، مگر سیاسی خلفشار کی وجہ سے یہ جامع منصوبہ بھی ناکام ہوا۔ 1991ء میں پانچویں اور 2007ء میں چھٹے ماسٹر پالان میں بھی نئی منصوبہ بندی کی گئی، مگر عمل نہ ہوسکا۔ ساتویں ماسٹر پلان کراچی اسٹریٹیجک ڈویلپمنٹ پلان 2020ء کو جدید تقاضوں کے مطابق بنایا گیا، مگر وسائل اور دیگر کمزوریوں کی وجہ سے پائے تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ یوں اگر غور کیا جائے تو ماضی کے ” کراچی ماسٹر پلانوں” کا تجربہ تلخ اور مایوسی سے بھرپور ہے۔
گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء!
صوبائی وزیرسعید غنی نے 2024ء میں محکمہ بلدیات حکومت سندھ، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی ، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیات اور مختلف انٹرنیشنل کنسلٹنٹ کی مشاورت اور معاونت سے تیار”گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء” کی ابتدائی اسٹیڈی کا افتتاح کیا۔ وزیر بلدیات کے مطابق یہ منصوبہ کے حوالے اسٹیڈیز شروع ہوگئی ہے، جو اگست 2026ء تک مکمل ہوگی، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 11 ستمبر 2025ء کو مزار قائد پر میڈیا سے گفتگو میں کہاکہ سندھ حکومت نے عالمی بینک کے تعاون سے کراچی ماسٹر پلان کی اسٹڈیز مکمل کر لی ہے جن میں ٹرانسپورٹ، بجلی، پانی، نکاسیٔ آب، کچرا اٹھانے، انفراسٹرکچر کی بہتری اور عمومی ترقی کے منصوبوں میں بھٹو روڈ کی تعمیر بھی شامل ہے جو قیوم آباد کو موٹر وے ایم 9 سے ملانے والی 39 کلومیٹر طویل شاہراہ ہے۔ دوسری جانب کراچی ماسٹر پلان 2047ء ڈائریکٹریٹ کے مطابق اس منصوبے منصوبہ بندی چند ماہ کی تاخیر سے 2027ء شروع میں مکمل ہوسکتی ہے، اسٹیڈی میں ایک ارب 93 کروڑ 30 لاکھ روپے کے اخراجات کا تخمینہ ہے اور یہ اسٹیڈی 5 مختلف مراحل میں ہوگی۔ ماسٹر پلان 2047ء قراردینے کی وجہ آزادی کا 100 سالہ جشن بتائی گئی ہے۔ اربن پلانر ڈاکٹر توحید کے مطابق سندھ حکومت کی شہری پالیسی، اسٹریٹجک پلاننگ یونٹ اور ادارہ ترقیات کراچی کے ماسٹر پلان آفس اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ساتھ مل کر نگرانی کر رہا ہے۔ یہ منصوبہ کراچی شہر کے کسی خاص حصے تک محدود نہیں بلکہ پورے کراچی ڈویژن پر محیط ہے۔
ماسٹر پلان 2047ء کی مدت اور منصوبے!
مجوزہ گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء کے تحت تین طرح کے منصوبے ہیں، مختصر مدت یعنی 2026ء تک، درمیان مدت یعنی 2035ء تک تکمیل اور طویل المدت یعنی 2047ء تک مکمل ہونگے، اخراجات کے حوالے سے کوئی واضح تخمینہ سامنے آیا نہ کسی حکومتی دستاویز عام ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مجموعی اخراجات کا اندازہ 50 ارب ڈالر سے زائد کا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ وضاحت بھی نہیں کہ اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے اور کہاں سے ہوگا۔ صوبائی وزیر بلدیات کے مطابق ماسٹر پلان کے حوالے سے ماضی کا طویل تجربہ ہے، ہم مختلف اسٹیک ہولڈرز کے اعتراضات اور اصلاحات کو بھی ترجیح دی گئی ہے،تمام اسٹیک ہولڈرز کو کھلی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنی تجاویز اور اصلاحات پیش کریں، ان پر غور ہوگا، شہر کی بہتی کے لئے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جارہا ہے تاکہ انکی مثبت رائے شامل کو شامل کیا جاسکے۔
کراچی کے مسائل اورمجوزہ حل!
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور سب سے زیادہ مسائل سے بھی دوچار ہیں۔ ڈائریکٹر ماسٹر پلان 2047ء ارشاد خان کے مطابق کراچی ماسٹر پلان 2047ء میں کراچی کے مسائل کا حل موجود ہے۔ گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء کی ویب سائٹ کے مطابق کراچی ماسٹر پلان 2047ء کا مقصد کراچی کو مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لئے نکاسی آب کا نظام کو بہتر کرنا، کچرے کی نکاسی کے نظام کو منظم، بنیادی انفراسٹرکچر کی ضروریات اور فراہمی، اقتصادی ترقی، صحت اور بہبود کی سہولیات کی فراہمی، انصاف اور برابری کے نظام کو لاگو کرنے، ٹرانسپورٹ اور نقل و حرکت کو بہتر اور مربوط بنانے، کچی آبادیوں کے مسائل کو حل اور زمین کے استعمال کی تقسیم، شہری ترقی اور تجدید بنانے، دیہی علاقوں کا انتظام اور تحفظ کو بہتر اور یقینی بنانا، رہائشی اور شہری پھیلاؤ کو قواعد و ضوابط کے مطابق بنانے، موسمیاتی تبدیلی کے مطابق منصوبہ بندی، قدرتی آفات کے خطرات کے نقصان سے بچنے کی بہتر حکمت عملی بنانے اور حکومتی و ادارہ جاتی طریقہ کے معیار کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔ اس طرح کی منصوبہ بندی ہر شہر کو وقت حساب سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ضروری ہے۔ عالمی سطح پر دنیا کے بڑے شہروں جیسے استنبول، دبئی اور سنگاپور نے بھی ماسٹر پلاننگ کے ذریعے اپنے مسائل حل کیے۔ دبئی نے ریگستان کو عالمی سرمایہ کاری کا مرکز بنایا، سنگاپور نے پانی کے بحران پر قابو پایا، اور استنبول نے ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید بنایا۔
ماسٹر پلان 2047ء اور ٹرانسپورٹ!
کراچی ماسٹر پلان 2047ء میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کو انتہائی اہمیت حاصل ہے، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 12 ستمبر 2025ء کو عالمی بینک کے ساتھ اجلاس کے دوران بتایا کہ صوبائی حکومت عالمی بینک کے تعاون سے کراچی کا جامع ٹرانسپورٹ ماسٹر پلان تیار کرے گی تاکہ شہر کے دیرینہ سفری بحران کو حل کیا جا سکے۔ اس منصوبے میں بس ریپڈ ٹرانزٹ نظام، میٹرو لائٹ ریل اور کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کو شامل کیا جائے گا، تاکہ شہریوں کو جدید اور پائیدار سفری سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ وزیر اعلیٰ کے مطابق عالمی بینک کو اہم ترقیاتی شراکت دار ہے ماسٹر پلان کے ذریعے تعاون کا دائرہ ییلو لائن بی آر ٹی سے آگے بڑھایا جائے گا۔ کراچی میں کم سے کم 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ سندھ حکومت اور عالمی بینک کا ایک مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا جو ماہرین کے لیے قواعد و ضوابط حتمی شکل دے گا۔
کراچی کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت!
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تصدیق کی ہے کہ کراچی کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے، مگر اعداد وشمار کے مطابق صوبائی حکومت اعلانات اور دعووں کے باوجود سرکاری طور پر صرف 400 بسیں فراہم کرسکی ہے، ان میں 300 بسیں پیپلز بس سروس، 80 گرین لائن اور 20 اورنج لائن۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 2017ء تک کراچی میں سرکاری اور نجی بسوں کی تعداد 12 ہزار تھی، جو کم ہو کر 5 ہزار بھی کم ہوچکی ہیں، ان بسوں اور کوچز میں سے ایک بڑی تعداد کی فیٹنس سوالیہ نشان ہے۔ بسوں کی کمی کے بعد تقریباً 3 لاکھ رکشے اور 60 ہزار چنگچی سڑکوں پر موجود ہیں۔ گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء میں بھی ماضی کی شہر کے ٹرانسپورٹ کو اہمیت دی گئی۔
کراچی کا امن و امان!
کراچی کا امن و امان گزشتہ 40 سال سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ جرائم کی روک تھام، شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے کراچی سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت شہر بھر میں تقریباً 10,000 جدید کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جنہیں ایک مرکزی کنٹرول روم سے مانیٹر کیا جاناہے۔ اس اقدام سے نہ صرف جرائم کی شرح میں کمی کی توقع ہے بلکہ ٹریفک مینجمنٹ اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں بھی خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ اگر منصوبہ مؤثر انداز میں مکمل ہو جائے تو کراچی کو ایک محفوظ، پرامن اور ترقی یافتہ میگا سٹی بنانے کی جانب یہ ایک انقلابی قدم ثابت ہوگا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے حکومتی اعلانات کے باوجد 2000 سے 2200 تک ہی کیمرے لگ سکے ہیں، یہی وجہ کہ اسٹریٹ کرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی ماسٹر پلان 2047ء میں امن و امن کو بھی انتہائی اہمیت دی جارہی ہے۔
پانی کا بحران!
کراچی کے بیشتر علاقوں میں پانی شدید بحران ہے، اس وقت پانی کی ضرورت 1200 ایم جی ڈی ہے، جبکہ فراہمی 650 ایم جی ڈی ہے اور 2050ء میں کراچی کی کے قریب یعنی ضرورت سے ۔ لاکھوں شہری روزانہ پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ بعض علاقوں میں ٹینکر مافیا راج کرتا ہے۔ نئے ماسٹر پلان میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ اگر یہ نظام شفاف طریقے سے چلا تو شہر کا سب سے پرانا زخم مندمل ہو سکتا ہے۔
کچرا اور ماحولیاتی بحران!
کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے مگر اس وقت کچرے کا شہرکہا جاتا ہے۔ جگہ جگہ کچرے ڈھیر لگے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بارہا اعلان کے باوجود صفائی کا کوئی مستقل حل ابھی تک نہیں نکلا ہے۔ کراچی ماسٹر پلان 2047ء میں جدید ویسٹ مینجمنٹ اور ری سائیکلنگ کا منظم نظام شامل ہے۔ اگر اس پر عمل ہوا تو یہ شہر ماحولیاتی آلودگی سے بڑی حد تک بچ سکتا ہے اور جدید دنیا میں اسی کو مستقل حل قراردیا جاتا ہے۔
کچی آبادیاں !
کراچی شہر کے بارے میں دعویٰ ہے کہ نصف سے زائد آبادی کچی بستیوں میں رہتی ہے یا تعمیرات کے وقت قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے ہیں، یعنی شہر کنکریٹ کے جنگل جیسا منظر پیش کررہا ہے۔ یہ حقیقت کسی بھی منصوبہ ساز کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔ ماسٹر پلان میں تمام بستیوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے اور قانون کے مطابق منظم کرنا ہے۔ منصوبے پر عمل کی صورت میں کراچی شہر ایک منظم اور مربوط شہر بن سکے گا۔
معاشی حب!
کراچی پاکستان کی معیشت کا حب ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے، ایم کیو ایم پاکستان کے دعوے کے مطابق کراچی شہر ملک کو 60 فیصد جبکہ صوبے کا 90 فیصد ٹیکس دیتا ہے۔ ملک کی سب سے متحرک بندرگاہ، صنعتیں اور مالیاتی ادارے کراچی میں ہیں، جو پورے ملک کو سہارا دیتے ہیں۔ نئے ماسٹر پلان میں صنعتی زونز کی توسیع، دھابیجی ٹرانسپورٹ انڈسٹری اور سمارٹ سٹی منصوبے شامل ہیں۔ یہ اقدامات روزگار پیدا کریں گے اور شہر کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بنائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل سب سے زیادہ مشکلات روزگار کے حوالے سے ہونگی، اس کا حل ابھی سے تلاش کرنا چاہئے۔
سیلاب نکاسی آب!
موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ، پلان میں حساس علاقوں کی نشاندہی، سیلابی راستوں کو محفوظ بنانا، اور سبز انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کی حکمت عملی شامل ہے۔ لیاری اور ملیر ندی جیسے حساس علاقوں میں غیر رسمی آبادیوں کو انسانی بنیادوں پر حل تلاش کرنا اس کی اولین ترجیح ہے، تاکہ سیلابی اور سیوریج کے پانی کی نکاسی کے لئے بہتر انتظام کیا جاسکے۔
خدشات اور توقعات!
کراچی کے قیام پاکستان کے بعد کے پانچوں ماسٹر پلانوں پر غور کیا جائے تو ہر ایک میں دعوے کئے گئے، مگر عمل نہیں ہوسکا شہری سیاسی اور انتظامی قیادت کے اعلانات اور دعووں پر یقین کرتی ہے اور عمل نہ ہونے پر مایوسی کا شکار رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہریوں میں اب بھی مشکوک ہیں کہ آیا “گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء” پر عمل ہوگا بھی یا نہیں۔ یہ بھی کہ اگر شفافیت نہ رہی اور سیاسی مشاورت و معاونت نہ رہی تو یہ منصوبہ بھی ناکام ہو جائے گا، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ کراچی بدل بھی سکتا ہے۔ اعلانات اور دعوے فائلوں تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی شکل اختیار کریں۔ اربن پلاننگ کے ماہرین کے مطابق ماسٹر پلان 2047ء کی کامیابی کے لئے سیاسی عزم، ادارہ جاتی تعاون، شفافیت اور ہر سظح پر عوامی شمولیت لازمی ہے۔
ماہر کی رائے!
کراچی کے معروف اربن پلانر اور محقق ڈاکٹر توحید کا کہنا ہے کہ بظاہر “گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047ء” کا تصور انتہائی بہترین اورہے ، مگر سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے منصوبے کے لئے خطیر رقم انتظام کہاں اور کیسے ہوگا۔ حکومت سندھ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے ابھی تک اس کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے، ممکن ہے کہ اسٹیڈی کی تکمیلی رپورٹ میں اس کی وضاحت بھی موجود ہو۔ ڈاکٹر توحید کے مطابق ماضی کے ماسٹر پلان بھی وقت کے حساب سے بہترین تھے ، مگر عمل نہ ہونے کی وجہ سے حالات دن بدن بدتر ہوتے گئے۔ اس بار اچھی امید ہے مگر ماضی کے تلخ تجربات کو مد نظر رکھتے ہیں تو خدشات بھی سامنے آتے ہیں۔