اگرچہ ناک بہنے یا چھینک کے ساتھ کسی بھی شخص کی ناک سے نکل کر رطوبت کا فضا میں بکھرنا کسی کو اچھا نہیں لگتا، مگر ناک کی جھلی میں موجود یہ لیس دار مواد انسانی جسم کے عجائبات میں سے ایک ہے۔ یہ ہمیں بیرونی حملہ آور جرثوموں سے بچاتا ہے اور اس کی خاص ساخت ہمیں جسم کے اندر کی حالتوں کے بارے میں اہم معلومات دے سکتی ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ گاڑھا مادہ ناک کی اندرونی جھلی کی حفاظت کرتا ہے، اسے نم رکھتا ہے، اور ہوا کے ذریعے جسم میں داخل ہونے والے بیکٹیریا، وائرس، پولن، دھول، مٹی اور آلودگی کو روکتا ہے۔ ناک کے اندر موجود سینکڑوں ننھے بالوں کی مدد سے یہ مواد ہمارے جسم کے اندرونی حصوں اور بیرونی دنیا کے درمیان ایک حفاظتی دیوار کے طور پر کام کرتا ہے۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں نظامِ تنفس کی بیماریوں اورویکسین کی ماہر پروفیسر ڈینیئلا فیریرا کے مطابق
اگر ناک سے پانی جیسی صاف رطوبت نکل رہی ہو تو یہ ظاہر کرتا ہےکہ جسم کسی چیز کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسے پولن یا دھول۔
اگر یہ میل سفید رنگت کا ہے تو ممکن ہے کہ کوئی وائرس جسم میں داخل ہو چکا ہے۔
جب ناک کا میل گاڑھی اور سبز مائل پیلی رنگت کا ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ بڑی تعداد میں جمع ہونے والے سفید خلیے مر کر خارج ہو رہے ہیں۔
اگر ناک کا میل سرخی مائل یا گلابی ہو تو اس میں خون شامل ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ آپ نے بار بار ناک صاف کی ہو جس کی وجہ سے ناک کے اندر کی جلد زخمی ہو گئی ہو۔
پروفیسر فیریرا کے مطابق کہ ناک کا میل بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے. ہم چہرہ صاف کرتے ہیں، چیزوں کو چھوتے ہیں، چھینکتے ہیں اور یوں انجانے میں یہ میل اردگرد پھیلا دیتے ہیں۔جو مختلف بیماریاں پھیلانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔