ڈی آئی جی ساؤتھ کراچی نے اداکارہ حمیرا اصغر کی موت کے کیس کی تفصیلات بتادیں ہیں۔
ماڈل اور اداکارہ حمیرا اصغر کی پُراسرار موت کی تحقیقات میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا نے ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کے دوران کیس سے متعلق کئی اہم حقائق عوام کے سامنے رکھے۔
ڈی آئی جی اسد رضا نے بتایا کہ لاش ملنے کے بعد فوری طور پر فرانزک اور کیمیکل سیمپلز مختلف لیبارٹریز کو بھیجے گئے۔ چونکہ ان کی موت کو کئی مہینے گزر چکے تھے، اس لیے موت کے فوراً بعد حاصل ہونے والے ثبوت دستیاب نہیں تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلیٹ سے کسی بھی قسم کے خون کے دھبے یا ہڈیوں کے ٹوٹنے کے آثار نہیں ملے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ موت کے وقت جسمانی تشدد یا زور زبردستی نہیں کی گئی۔ پولیس افسر کے مطابق ابھی تک خودکشی یا قتل کے امکانات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا گیا، لیکن شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ قدرتی موت ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھیں:حمیرا اصغر اور مکان مالک کے درمیان کرائے کا تنازعہ 2019 سے جاری رہنے کا انکشاف
انہوں نے کہا کہ حمیرا کے موبائل فون کی فرانزک تحقیقات میں بھی کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا کہ وہ کسی بلیک میلنگ کا شکار تھیں، البتہ انہوں نے اپنے واٹس ایپ ہیک ہونے کی شکایت ضرور درج کروائی تھی، جس کی متعلقہ تھانے میں تفتیش جاری ہے۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ اہم بات یہ بھی سامنے آئی کہ ان کے فلیٹ سے کوئی ڈپریشن کی دوا بھی برآمد نہیں ہوئی، جو ذہنی دباؤ یا خودکشی کی تھیوری کو مزید کمزور کرتی ہے۔ اسد رضا نے کہا کہ پولیس کا کام انصاف کی فراہمی ہے، نہ کہ متاثرین کی کردار کشی۔
واضح رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 6 میں ایک فلیٹ سے ملی تھی، وہ گزشتہ 7 سال سے اس کرائے کے فلیٹ میں مقیم تھیں، اداکارہ 2018ء میں لاہور سے کراچی منتقل ہوئیں تھیں۔