Karachi
Current weather
Humidity-
Wind direction-

چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران کی تقرری اور مشاورتی خط!

Election commission
اپ ڈیٹ رہیں – فوری اطلاعات کے لیے ٹی او کے کو واٹس ایپ پر فالو کریں۔

نئے چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران کی تقرری کیلئے مشاورت کا آغاز ہوگیا ہے، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمرایوب کو خط لکھ کر ملاقات کیلئے مدعو کیاہے۔ 16 مئی 2025ء کو لکھے گئے خط میں وزیراعظم شہباز شریف نے لکھا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران کی مدت 26 جنوری کو ختم ہو چکی ہے، جبکہ انہوں نے آرٹیکل 215 کے تحت کام جاری رکھا ہے۔ وزیراعظم کا کہناہے کہ آرٹیکل 218 کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کیلئے تجاویز پارلیمانی کمیٹی کو ارسال ہونی ہیں، چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران کی تقرری کیلئے آپ کو ملاقات کی دعوت دیتا ہوں۔ وزیراعظم کا یہ خط 4 جون 2025ء کو منظر عام پر آیا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر و ممبران!
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ  اور دو ممبران نثار احمد درانی اور شاہ محمد جتوئی کی 5 سالہ مدت ملازمت 26 جنوری کو ختم ہوئی ہے، تاہم 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے مطابق نئے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی تعیناتی تک تینوں شخصیات عہدوں پر رہیں گی۔ سکندر سلطان راجہ ،الیکشن کمیشن کے سندھ سے ممبر نثار احمد درانی اور بلوچستان سے شاہ محمد جتوئی کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 2013ء کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں 24 جنوری 2020ء کو ان عہدوں پر مقرر کیا گیا اور 27 جنوری 2020ء کو 5 سال کے لئے عہدے کا چارج سنبھالیا۔ آئین کے آرٹیکل 215 کے مطابق چیف الیکشن کمشنر یا کوئی رکن عہدہ سنبھالنے کی تاریخ سے پانچ سال کی مدت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، تاہم آئین کے اسی آرٹیکل میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کی گئی تبدیلی کے بعد چیف الیکشن کمشنر یا کوئی رکن مدت ختم ہونے کے بعد بھی اس وقت تک عہدے پر فائز رہے گا جب تک ان کی جگہ نئی تقرری نہ ہوجائے، اس کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں ہے۔

مدت ختم مگر عہدے برقرار!
ملک میں چیف الیکشن کمشنر اور دوممبران کی مدت ختم ہونے کے باوجودنئے چیف الیکشن کمشنر اور دوممبران کی تعیناتی کیلئے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے مابین مشاورتی عمل مکمل نہ ہوسکا تھا، تاہم اب وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا اپوزیشن لیڈر کے نام خط سامنے آگیا ہے۔ اس خط کو ماہرین مشاورت کاآغاز قرار دے رہے ہیں۔ آئین آرٹیکل 213کے مطابق وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان چیف الیکشنز کمشنر اور اراکین کی تعیناتی کیلیے مشاورت عمل لازمی ہے۔ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں دونوں ہر عہدے کے لئے تین تین افراد کی علیحدہ فہرستیں پارلیمانی کمیٹی کے غور کے لیے بھیجیں گے جو ان میں سے کسی ایک نام کی منظوری دے گی۔ پارلیمانی کمیٹی اسپیکر کی جانب سے تشکیل دی جائے گی جس میں مجموعی طور پر 12 ارکان ہوں گے جن میں سے نصف حکومتی بینچوں اور آدھے حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو شامل کیا جائے گا۔ آئینی طریقہ کار کے مطابق پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے پر معاملہ سپریم کورٹ کے پاس چلا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر کیلیے 68 سال سے کم عمر کے حامل سابق سپریم کورٹ ججوں، ٹیکنوکریٹ اور بیوروکریٹ بھی اہل ہیں،65 سال سے کم عمر ہائی کورٹ ریٹائرڈ ججوں، بیوروکریٹ اور ٹیکنوکریٹ الیکشن کمیشن اراکین بننے کے اہل ہیں۔

حکومتی خاموشی!
26 ویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت خاموش تھی ، کیونکہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے 26ویں آئینی ترمیم کے تحت موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نئے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر تک کام جاری رکھیں گے ۔ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر آئین کے مطابق ہوگا اور آئین اجازت دیتا ہے جب تک نئی تعیناتی نہیں ہوتی یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت میں بھی دو ممبران کی تعیناتی میں تقریباً ایک سال تاخیر ہوئی تھی۔

خطوط!
جنوری 2025ء میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ کر فوری طور پر چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دو ارکان کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کو چیف الیکشن کمشنر اور دو اراکین کی تعیناتی کے لیے مجھ سے مشاورت کرنا تھی تاہم انہوں نے  کوئی رابطہ نہیں کیا ہے اس لیے اسپیکر کو خط لکھا ہے۔ تازہ ترین صورتحال میں وزیر اعظم کا اپوزیشن لیڈر کے نام مشاورتی خط سامنے آچکاہے۔ آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی تعیناتی وزیرِ اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہوتی ہے تاہم قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے براہ راست وزیر اعظم سے رابطہ یا خط نہ لکھنے کا فیصلہ کیا، جس کے باعث ان اہم عہدوں سے متعلق فیصلوں میں تاخیر ہوئی اور انکا خط بھی غیر مئوثر رہا۔

بامعنی مشاورت!
حکو مت تاخیر کے لئے بطور مثال سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں دوکے سندھ اور بلوچستان کے ممبران کی تعیناتی میں تقریباً ایک برس تاخیر سے ہوئی تھی۔ عمران خان نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت نہیں کی تھی اور آئین کے برعکس الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تعیناتی کی تھی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے تقریباً 5 ماہ قبل بالواسط لکھے گئے خط کے بعد اب وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے 16 مئی 2025ء کو اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے نام لکھا ہے، تاہم اس خط میں اپوزیشن لیڈر کے خط ذکر نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے خط کے بعد بامعنی مشاورت کا عمل شروع ہوچکا ہے، جس کے بعد یہ مشاورت نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے آئندہ چند دنوں کو اہم قرار دیا جارہاہے۔

شیئر کریں

گوگل نیوز پر ٹائمز آف کراچی کو فالو کریں اور اپنی پسندیدہ مواد کو زیادہ تیزی سے دیکھیں۔
Leave a Reply
ریلیٹڈ پوسٹس
Close Button
Advertisement