ایک لاکھ چونسٹھ ہزار قیمتی انسانی جانیں اور سات سو ارب روپے سالانہ کا مالی نقصان ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یہ وہ خسارہ ہے جوصرف تمباکو پاکستان کوپہنچا رہا ہے.
تمباکو کا استعمال پاکستان میں صحت کے سب سے اہم چیلنجز میں سے ایک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں دو کروڑ چالیس لاکھ سے زیادہ بالغ افراد مختلف شکلوں میں تمباکو کا استعمال کرتے ہیں ۔ جن میں سے تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ افراد تمباکو کا استعمال سگریٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔ جومختلف بیماریوں بلخصوص پھیپھڑوں کا کینسر، دل کی بیماری اور پھیپھڑوں کے افعال میں مسلسل رکاوٹ سمیت دیگر کئی بیماریوں کا باعث ہے۔
‘ڈبلیو ایچ او’ کے مطابق اگر پاکستان میں تمباکو کی خریدوفروخت اور اس کے استعمال پر قابو پانے کے لیے مزید اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک پائیدار ترقی کے حصول سے متعلق طبی اہداف تک پہنچنا ممکن نہیں رہے گا۔ ادارے کے مطابق تمباکو کی تمام مصںوعات صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں اور خاص طور پر بچے یا نوعمر افراد ان سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ڈبلیوایچ او کے مطابق تمباکو اوراسکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس کانفاذ اسکے استعمال اور اس سے ہونے والے نقصانات میں کمی کا بڑا زریعہ بن سکتا ہے ۔
عالمی ادارہ صحت کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تمباکو پر ٹیکس عائد کرنے سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جبکہ اس کے استعمال، اس سے متعلقہ بیماریوں اور طبی نظام پر دباؤ میں کمی آتی ہے۔ سن 2023 میں پاکستان میں تمباکو مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے کے بعد تمباکو نوشی میں 19.2 فیصد کمی آئی جبکہ 26.3 فیصد سگریٹ نوش افراد نے تمباکو کا استعمال کم کیا۔
یہی نہیں بلکہ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 66 فیصد اضافہ ہوا جس سے حاصل ہونے والی آمدنی 24۔2023 کے مالی سال میں 237 ارب روپے تک پہنچ گئی جبکہ 23-2022 میں یہ 142 ارب روپے تھی۔
پاکستان میں ‘ڈبلیو ایچ او’ کے نمائندے ڈاکٹر ڈاپینگ لو کے مطابق تمباکو سے بنی کوئی چیز محفوظ نہیں ہوتی۔ یہ صحت عامہ، معیشت، بچوں اور آنے والی نسلوں پر تباہ کن بوجھ ہے۔ تمباکو نوشی ترک نہ کرنے والے نصف لوگ اس عادت کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جبکہ تمباکو نوشی کرنے والے لوگوں کے قریب رہنے والے دیگر افراد کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔