Karachi
Current weather
Humidity-
Wind direction-

پیکا ترمیمی بل کیا ہے

سوشل میڈیا پر غیر قانونی مواد ، جھوٹی اور بے بنیاد خبروں اور اطلاعات کے پھیلاو کو روکنے اور کسی بھی فرد یا ادارے کو بدنام کرنے کے عمل کو قابو کرنے کے لئے پیکا قوانین میں ترمیم کی گئی ہے جسے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ترمیمی بل 2025کا نام دیا گیا۔

بل کے مطابق غیر قانونی مواد سوشل میڈٰیا پر پھیلانے والے کو جرمانہ ، سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی، قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکو عارضی یا مستقل طور پر بند بھی کیا جا سکے گا۔

غیر قانونی مواد سے مراد نظر یہ پاکستان کے خلاف مواد، فحش مواد، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی ،جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف ’الزام تراشی‘، بلیک میلنگ اور ہتک عزت شامل ہیں۔

پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیا جا سکے گا۔ ترمیمی بل کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات بھی سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کیے جا سکیں گے۔

بل کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، اتھارٹٰی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن یا رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی۔اتھارٹی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔

اتھارٹی کا مرکزی دفتراسلام آباد میں ہوگا، صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاترقائم کیا جائے گا۔اس اتھارٹی میں کل نو ممبران ہوں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بر بنائے عہدہ اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔ دیگرپانچ اراکین میں دس سالہ تجربہ رکھنے والاصحافی، سافٹ وئیرانجنئیر،ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔

سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی جس کے سربراہ کا تعیناتی تین سال کے عرصے کے لیے ہو گی۔ نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔

اس ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی جس کا چیئرمین ہائیکورٹ کا سابق جج ہو گا۔ ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلے سے متاثرہ شخص ٹربیونل میں درخواست دے سکے گا،
ترمیمی بل کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔

پیکا ترمیمی بل کے تحت فیک نیوزپھیلانےوالےشخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو عارضی یا مستقل طور پر بند بھی کیا جا سکے گا۔ یہ ادارہ متعلقہ اداروں کو مواد بلاک کرنے کے حوالے سے ہدایات دے سکے گا، جس کی مدت 30 روز ہو گی، جس میں مزید 30 روز کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

صحافتی تنظیمیں اس بل کو ’صحافیوں کی آواز دبانے والا کالا قانون قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج ہیں۔ صحافی تنظیموں کی جوائینٹ ایکشن کمیٹی نے بل کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے اور احتجاجی تحریک شروع کرنےکا اعلان کیا ہے جوائینٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اختلاف رائے کو جرم بنا دینا ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہناہے کہ’یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔ان کا اصرار تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہےاور اس پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ پیکا ترمیمی بل ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے۔

Share this news
The views expressed in this article are those of the author and do not necessarily represent the editorial stance of Times of Karachi.
ٹائمز آف کراچی کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Share this news

Follow Times of Karachi on Google News and explore your favorite content more quickly!
Leave a Reply
Related Posts
Close Button