پنجاب کے شہر جہلم کی پولیس نے معروف مذہبی اسکالر انجینئر محمد علی مرزا کو امن عامہ (تھری ایم پی او) آرڈیننس کے تحت حراست میں لے کر جیل منتقل کردیا ہے۔
جہلم پولیس نے تصدیق کی ہے کہ انجینئر محمد علی مرزا کو ڈپٹی کمشنر سید میثم عباس کے احکامات پر تھری ایم پی او کے تحت حراست میں لے کر 30 دن کے لیے جیل منتقل کردیا گیا ہے، پولیس کے مطابق محمد علی مرزا کی اکیڈمی کو بھی تالے لگا کر سیل کردیا گیا ہے۔
تھری ایم پی او کا قانون کیا ہے؟
تھری ایم پی او کا قانون پاکستان میں حکومت کو ایسے افراد کی حفاظتی حراست کے لیے وسیع اختیارات دیتا ہے جنھیں عوامی تحفظ یا نظم کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ قانون ایک طے شدہ مدت کے لیے کسی بھی شخص کی گرفتاری اور نظربندی کی اجازت دیتا ہے، جسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ حراست ایک وقت میں لگاتار چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی تاہم، تین ماہ سے زیادہ طویل حراست کے لیے عدالتی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
انجینئر محمد علی مرزا پر کیا الزام ہے؟
معروف مذہبی اسکالر انجینئر محمد علی مرزا کو حراست میں لیے جانے کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ نے یہ فیصلہ اُس درخواست کی بنیاد پر کیا ہے جو ڈسٹرکٹ پولیس افسر، جہلم کے نام تحریر کی گئی ہے۔ اس درخواست میں انجینیئر محمد علی مرزا کی جانب سے حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا ہے کہ اُن کی جانب سے ادا کیے گئے کچھ کلمات نے مبینہ طور پر ’مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح‘ کیے ہیں اور درخواست گزار نے اِسی بنیاد پر محمد علی مرزا کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی استدعا کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق تھری ایم پی او کے تحت محمد علی مرزا کی حراست کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان کے مطابق انجینیئر محمد علی پر الزام ہے کہ انھوں نے انتہائی قابل اعتراض اور اشتعال انگیز تقاریر کی ہیں جو گمراہ کن، اشتعال انگیز اور نقض امن کا باعث بن سکتی ہیں، انجینیئر مرزا کے بیانات فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے اور مذہبی جذبات کا استحصال کر کے نفرت کو ہوا دے سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں:کراچی میں تبلیغی جماعت کے 3 روزہ اجتماع کاآغاز ہو گیا
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس چودھری شہباز ہنجرا نے بی بی سے گفتگو میں بتایا کہ ‘ڈسٹرکٹ جیل میں اُن سے اُن کے وکلا اور اہلخانہ کے سوا کوئی اور ملاقات نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ایک حساس مذہبی معاملہ ہے اور انسانی جان کی حفاظت ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ 3 ایم پی او کے تحت نظربندی پولیس و ضلعی انتظامیہ کا فوری اقدام تھا، متنازع مذہبی بیان کا یہ معاملہ ابھی زیرتفتیش ہے اور اگر محمد علی مرزا تفتیش میں قصوروار پائے گئے تو ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جا سکتا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق محمد علی مرزا کی طرف سے تاحال کسی کو وکیل مقرر نہیں کیا گیا اور نہ ہی فی الوقت اُن کے خلاف تھری ایم پی او کے حکمنامے کو چیلنج کیا گیا ہے۔