پاک بھارت تعلقات کا حال اُس پرانے جھگڑالو ہمسائے جیسا ہے جس سے روز تکرار بھی ہوتی ہے، مگر دروازے بھی بند نہیں ہوتے۔ لیکن 2014 میں جب نریندر مودی بھارت کے وزیرِاعظم بنے تو یوں لگا جیسے اس ہمسائے نے نہ صرف تالہ بدلوا لیا، بلکہ خاردار باڑ بھی لگا دی۔
مودی سرکار کی شدت پسند پالیسیاں صرف بھارت کی اقلیتوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے بھی ایک خطرہ بن چکی ہیں۔ نہ صرف پاکستان، بلکہ نیپال، بنگلہ دیش اور چین جیسے دیگر پڑوسی بھی بھارت کے بدلتے رویے پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
پہلگام کا واقعہ اوربھارت کی الزام تراشی کی پرانی عادت
22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک افسوسناک دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا جس میں 26 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ کی طرح تحقیقات یا شواہد کی زحمت کیے بغیر انگلی سیدھی پاکستان کی طرف اٹھا دی۔
پاکستان نے نہ صرف اس الزام کو سختی سے مسترد کیا بلکہ شفاف تحقیقات کی پیشکش بھی کی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آئیں، مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کرتے ہیں۔ مگر بھارت کو جیسے امن کی زبان سمجھ ہی نہیں آئی۔
آپریشن “بنیان مرصوص”
پھر آئی 7 مئی 2025 کی رات، جب بھارت نے ایک بار پھر رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔ شاید مقصد 2019 کے “سوئفٹ ریٹارٹ” کی خفت مٹانا تھی ، مگر نتیجہ؟ ایک بار پھر پاک فضائیہ نے دفاعی آپریشن “بنیان مرصوص” کے تحت ایسا دندان شکن جواب دیا کہ بھارت کو 6 جنگی طیاروں، جدید دفاعی نظام اور کئی فوجی تنصیبات سے ہاتھ دھونا پڑا۔
شدت پسندی دکانوں تک آن پہنچی
جنگ کے بعد مودی سرکار اوربھارتی میڈیا کی نفرت انگیز مہم نے انتہا پسندی کی ایسی آگ بھڑکائی کہ بھارتی مسلمانوں کو زبردستی پاکستان مخالف نعرے لگوانے پر مجبور کیا جانے لگا۔ بات صرف سڑکوں تک محدود نہ رہی، بلکہ حیدرآباد دکن میں واقع مشہور” کراچی بیکری ” پر بھی چڑھائی کر دی گئی، صرف اس لیے کہ اس کا نام پاکستان کے شہر پر کیوں ہے!
کراچی میں کیا ہوا؟
یہ سب دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال آیا کہ اگر بھارت میں پاکستان سے منسوب نام برداشت نہیں کیے جا رہے، تو پاکستان میں کیا حال ہے؟ میں کراچی کی گلیوں میں نکلا اور اُن دکانوں کا جائزہ لیا جن کے نام بھارتی شہروں سے منسوب ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہاں سب کچھ بالکل نارمل چل رہا تھا۔
کراچی میں موجود ’’انبالہ بیکری‘‘ میں جب میں داخل ہوا تو خوشبوؤں نے استقبال کیا اور چہروں پر مسکراہٹیں دکھائی دیں۔ گفتگو کے دوران اسٹاف نے ہنستے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی پاکستان نے بھارت کا حملہ پسپا کیا، ان کی بیکری پر مٹھائی کی مانگ دوگنی ہو
گئی! لوگ خوشی سے مٹھائیاں خرید کر بانٹ رہے تھے۔ کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ “تمھاری بیکری کا نام بھارتی شہر پر کیوں ہے؟”
فرق صاف ظاہر ہے
بات صرف ناموں یا بیکریوں کی نہیں۔ بات اس سوچ کی ہے جو قوموں کو برداشت، رواداری اور احترام سکھاتی ہے۔ جنگوں میں جذبہ حب الوطنی فطری ہے، لیکن جب یہ جذبہ نفرت میں بدل جائے، اور عوام کو دشمنی کی خوراک دی جائے، تو معاشرے بیمار ہو جاتے ہیں۔
بھارت میں انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ پاکستان میں کم از کم اس حوالے سے برداشت کی فضا دیکھنے کو ملی۔ یہ وہ فرق ہے جو دونوں معاشروں کے مزاج کو واضح کرتا ہے۔
ناموں پر نہیں، کاموں پر بات ہونی چاہیے۔ امید ہے کہ خطے کے رہنما جذباتی بیانات اور جنگی جنون سے ہٹ کر عقل، تحمل اور ترقی کی راہ اختیار کریں گے، تاکہ بیکریاں مٹھائیاں بانٹنے کے لیے ہوں، نہ کہ نفرت کا نشانہ بننے کے لیے۔

رضوان فراست کو شعبہ صحافت میں 3 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں ٹائمز آف کراچی سے وابستہ ہیں۔ ملکی سیاست اور معاشرتی مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔