پہلگام واقعے کے بعد جب پاکستان اور بھارت ایک خطرناک تصادم کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے، تو عالمی برادری خاص طور پر امریکہ کی مداخلت ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ اس کشیدگی کے دوران یہ بات کسی شک و شبہ سے بالا ہے کہ بھارت نے براہِ راست امریکہ سے رابطہ کی اور سیز فائر کی درخواست کی ۔
اس بات کا انکشاف نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی واشنگٹن کے پروفیسر حسن عباس نے نجی ٹی وی سے گفتگو کر تے ہوئے کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کے جنگی جہاز گرانا اور عسکری طور پر چابک دستی کا مظاہرہ غیر متوقع تھا۔ بھارت کو ابتدا میں یہ اندازہ تھا کہ پاکستان بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی۔ پاکستان نے نہ صرف مؤثر عسکری ردعمل دیا بلکہ سفارتی سطح پر بھی خود کو بھرپور طریقے سے منوایا۔
پروفیسر حسن عباس کے مطابق اس صورتحال میں امریکہ، سعودی عرب اور برطانیہ کا پس پردہ کردار انتہائی اہم رہا۔ سعودی عرب اور یو کے نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے ماحول کو نرم کیا، جس کا نتیجہ سیز فائر کی صورت میں نکلا۔ صدر ٹرمپ نے جب کشمیر کا نام لے کر ٹویٹ کیا تو یہ درحقیقت پاکستان کی سفارتی کامیابی تھی۔ کیونکہ پاکستان نے سیز فائر کی منظوری کو کشمیر کے ذکر سے مشروط کیا تھا۔
دوسری جانب، چین کی ٹیکنالوجیکل معاونت سے پاکستان نے جس طرح جامنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور بھارتی ایئر بیسز کو مانیٹر کیا، اس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ ان عوامل نے بھارت کی پوزیشن کو نہ صرف کمزور کیا بلکہ اسے امریکہ سے رجوع کرنے پر مجبور بھی کر دیا۔
ان کاکہنا تھا کہ بھارت نے پاکستانی افواج کی صلاحیتوں کو انڈر اسٹیمیٹ بھی کیا اس سارے تناظر میں جب اسکیلیشن شروع ہو ئی تب امریکہ نے پہلے تو یہ کہا کہ یہ خود ہی آپس میں فیصلہ کر لیں گے کیونکہ انڈیا نے بھی امریکہ کو یہ کہا تھا کہ ہم انکو خود ہی ڈیل کر لیں گے آپ کو بیچ میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس دفعہ پاکستان کو سبق سکھائیں گے ۔ لیکن جب انکو سخت ری ایکشن ملا اور پاکستان کی جانب سے ذہانت اور احتیاط کا مظاہرہ کیا گیا اس نے بھی انڈیا کو پریشان کیا جسکے بعد انڈیا امریکہ کے پاس سیز فائر کی درخواست کے کر جانے پر مجبور ہو گیا ۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان اس وقت تجارتی تناؤ بھی موجود تھا، جس کا اثر اس خطے کی صورت حال پر پڑا۔ صدر ٹرمپ نے واضح طور پر دونوں ممالک کو پیغام دیا کہ اگر کشیدگی بڑھی تو تجارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں، اور یہی سفارتی دباؤ بھارت کے لیے ایک وارننگ تھا۔
بھارت کے حامی امریکی پالیسی ساز بھی اس واقعے کے بعد خاموش ہو گئے کیونکہ عالمی بیانیے میں پاکستان کے مؤقف کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ پاکستان نے واضح کیا کہ وہ دہشتگرد عناصر کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور اپنی پالیسی میں تبدیلی لا چکا ہے۔ عسکریت پسندوں کو مین اسٹریم میں لانے اور نیوٹرل تحقیقات کی پیشکش جیسے اقدامات نے بھی پاکستان کی ساکھ بہتر کی۔
مختصرا یہ کہ پاک بھارت حالیہ کشیدگی میں بھارت کو نہ صرف میدان جنگ میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سفارتی میدان میں بھی اسے شکست ہوئی اور بین القوامی برادری میں اسکا بیانیہ بھی رد ہوا۔ ساتھ ہی معاشی میدان میں بھی امریکہ کی دہمکی نے اسے مذید کمزور کیا جبکہ پاکستان ہر میدان میں کامیابی کے ساتھ ساتھ کشمیر کا معاملہ دنیا بھر میں اجاگر کرنے اور سیز فائر کو کشمیر مزاکراست سے مشروط کرنا پاکستان کی سب سے بڑیکامیابی ثابت ہو ئی ۔