سندھ اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال میں 46 ارکان وقفۂ سوالات اور توجہ دلاؤ نوٹسز کے بزنس میں متحرک رہے، جن میں اکثریت متحدہ قومی موومنٹ کے ممبران کی تھی، جبکہ قانون سازی اور قراردادوں میں حکومتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی حاوی رہی۔
سندھ کی 16ویں اسمبلی کے پہلے سال میں ایوان مکمل نہ ہو سکا، چار ارکان نے احتجاجاً حلف نہیں اٹھایا، جبکہ تین مخصوص نشستوں کا تنازع بھی تاحال حل طلب ہے۔ موجودہ ایوان کی کل تعداد 164 ہے، تاہم دوبارہ گنتی کے بعد تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سربلند خان کی جگہ پیپلز پارٹی کے محمد آصف کامیاب قرار دیے گئے، یوں پہلے پارلیمانی سال میں مجموعی طور پر 165 ارکان نے حلف اٹھایا۔
حلف نہ اٹھانے والے ارکان میں جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمٰن اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے تین ارکان شامل ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی ایک، ایک خاتون رکن کی مخصوص نشست اب بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔
موجودہ، یعنی 16ویں سندھ اسمبلی، 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی اور اس کا پہلا اجلاس 24 فروری 2024ء کو منعقد ہوا، جس میں ارکان نے حلف اٹھایا۔ یوں سندھ اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال 23 فروری 2025ء کو مکمل ہوا۔
پہلے پارلیمانی سال میں اسمبلی کے 10 اجلاسوں میں مجموعی طور پر 102 دن شمار ہوئے، جن میں سے 61 دن اجلاس منعقد ہوا اور 41 دن چھٹی رہی۔ اجلاس کی مجموعی کارروائی تقریباً 190 گھنٹے جاری رہی، جس میں 141 ارکان نے مختلف مواقع پر حصہ لیا، جبکہ 23 ارکان پورے سال خاموش رہے۔
اسمبلی سیکریٹریٹ ریکارڈ کے مطابق پہلے پارلیمانی سال میں 28 ارکان نے مجموعی طور پر 1185 سوالات جمع کرائے، جن میں سے 916 کو درست قرار دیا گیا، جبکہ 170 کو مسترد کر دیا گیا۔ ایوان میں 254 تحریری سوالات کے جوابات دیے گئے اور 500 سے زائد ضمنی سوالات کے جوابات بھی شامل ہیں۔ 99 سوالات کی قانونی پوزیشن تاحال حل طلب ہیں۔
مجموعی طور پر 44 ارکان نے 227 توجہ دلاؤ نوٹسز جمع کرائے، جن میں سے 67 ایوان میں پیش ہوئے، 34 کو مسترد کیا گیا اور 126 اب بھی زیر غور ہیں۔ (سوالات اور توجہ دلاؤ نوٹسز پر چارٹ ملاحظہ کریں)
سندھ اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران ارکان کی انفرادی کارکردگی | ||||||||
توجہ دلائو نوٹس | وقفہ سوال | نام اور پارٹی | ||||||
ایوان میں پیش | اجازت | کل جمع | ایوان میں پیش | اجازت | کل جمع | پارٹی | نام رکن | نمبر شمار |
1 | 1 | 1 | 49 | 142 | 158 | MQMP | محمد دانیال | 1 |
3 | 10 | 11 | 39 | 131 | 152 | MQMP | قرۃ العین | 2 |
۔ | 5 | 6 | 15 | 70 | 74 | MQMP | محمد مظاہر امیر خان | 3 |
1 | 4 | 9 | 16 | 54 | 71 | PTI | محمد شبیر قریشی | 4 |
3 | 7 | 7 | 16 | 68 | 70 | MQMP | فوزیہ حمید | 5 |
1 | 1 | 1 | 30 | 57 | 64 | MQMP | علی خورشیدی | 6 |
۔ | 15 | 15 | 18 | 48 | 56 | MQMP | بلقیس مختار | 7 |
2 | 2 | 3 | 3 | 33 | 48 | MQMP | نجم مرزا | 8 |
1 | 5 | 6 | 7 | 31 | 47 | MQMP | شارق جمال | 9 |
1 | 1 | 1 | 25 | 43 | 44 | MQMP | عبدالباسط | 10 |
2 | 5 | 5 | 1 | 38 | 39 | MQMP | فرح سہیل | 11 |
2 | 6 | 8 | 6 | 29 | 32 | MQMP | فیصل رفیق | 12 |
۔ | 1 | 1 | 4 | 28 | 32 | MQMP | ارسلان پرویز | 13 |
۔ | 2 | 2 | 1 | 16 | 26 | MQMP | عادل عسکری | 14 |
۔ | 1 | 3 | 1 | 20 | 24 | MQMP | فہیم احمد | 15 |
1 | 2 | 3 | 7 | 19 | 21 | MQMP | وسیم احمد | 16 |
2 | 17 | 17 | 5 | 12 | 20 | PPPP | ہیر سوہو | 17 |
4 | 12 | 14 | 2 | 11 | 20 | MQMP | محمد عامر صدیقی | 18 |
۔ | ۔ | ۔ | ۔ | 16 | 17 | PPPP | مجیب الحق | 19 |
4 | 11 | 12 | 2 | 9 | 17 | MQMP | جمال احمد | 20 |
4 | 7 | 10 | 1 | 12 | 16 | MQMP | محمد راشد خان | 21 |
4 | 4 | 4 | 2 | 9 | 15 | JIP | محمد فاروق | 22 |
۔ | 3 | 3 | 2 | 8 | 8 | PPPP | ماروی راشدی | 23 |
1 | 3 | 4 | 2 | 6 | 8 | MQMP | معاذ محبوب | 24 |
۔ | ۔ | ۔ | ۔ | 2 | 3 | PPPP | شازیہ کریم | 25 |
2 | 5 | 5 | ۔ | 2 | 2 | MQMP | صابرحسین قائم خانی | 26 |
1 | 2 | 2 | ۔ | 1 | 1 | MQMP | مہیش کمار | 27 |
1 | 1 | 1 | ۔ | 1 | 1 | PPPP | تنزیلہ ام حبیبہ | 28 |
4 | 10 | 12 | ۔ | ۔ | ۔ | PTI | سجاد علی سومرو | 29 |
1 | 8 | 10 | ۔ | ۔ | ۔ | MQMP | رانا شوکت علی | 30 |
3 | 5 | 7 | ۔ | ۔ | ۔ | MQMP | نصیر احمد | 31 |
1 | 6 | 6 | ۔ | ۔ | ۔ | PTI | واجد حسین خان | 32 |
1 | 5 | 6 | ۔ | ۔ | ۔ | MQMP | سکندر خاتون | 33 |
3 | 5 | 5 | ۔ | ۔ | ۔ | MQMP | ریحان اکرم | 34 |
۔ | 3 | 3 | ۔ | ۔ | ۔ | MQMP | سید اعجاز الحق | 35 |
1 | 2 | 3 | ۔ | ۔ | ۔ | PTI | سربلند خان | 36 |
1 | 2 | 3 | ۔ | ۔ | ۔ | PTI | بلال حسین جدون | 37 |
1 | 3 | 3 | ۔ | ۔ | ۔ | PTI | محمد ریحان راجپوت | 38 |
۔ | 3 | 3 | ۔ | ۔ | ۔ | PPPP | خیرالنساء مغل | 39 |
1 | 2 | 3 | ۔ | ۔ | ۔ | PTI | محمد اویس | 40 |
1 | 2 | 2 | ۔ | ۔ | ۔ | MQMP | انیل کمار | 41 |
1 | 1 | 2 | ۔ | ۔ | ۔ | MQMP | طحہ احمد خان | 42 |
۔ | 2 | 2 | ۔ | ۔ | ۔ | MQMP | سید محمد عثمان | 43 |
1 | 1 | 1 | ۔ | ۔ | ۔ | PTI | ساجد حسین میر | 44 |
1 | 1 | 1 | ۔ | ۔ | ۔ | PPPP | شازیہ عمر | 45 |
1 | 1 | 1 | ۔ | ۔ | ۔ | MQMP | کرن مسعود | 46 |
اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق ایوان میں موجود 164 ارکان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 118، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 37، پاکستان تحریک انصاف کے 8 اور جماعت اسلامی کا ایک رکن شامل ہے۔
مجموعی طور پر ایوان میں 18 سرکاری بل جمع ہوئے، جن میں سے 14 منظور ہو گئے جبکہ 4 بل زیر غور ہیں۔ 4 نجی بل بھی جمع کرائے گئے، جو تمام کے تمام زیر غور ہیں۔ 204 قراردادیں جمع ہوئیں، جن میں سے 31 منظور کی گئیں، جبکہ 173 قراردادیں ختم، مسترد یا واپس لے لی گئیں۔
25 تحاریکِ استحقاق جمع ہوئیں، جن میں سے 13 ایوان میں پیش ہوئیں، 11 مسترد کی گئیں، 2 کمیٹی کے سپرد ہوئیں، جبکہ 12 واپس لے لی گئیں یا ختم کر دی گئیں۔
اسی طرح 78 تحاریک التوا جمع ہوئیں، جن میں سے 38 ایوان میں پیش ہوئیں، 5 پر بحث ہوئی، 33 مسترد اور 40 واپس لی گئیں یا ختم ہو گئیں۔ مجموعی طور پر 41 دیگر تحاریک جمع ہوئیں، جن میں سے صرف ایک منظور کی گئی، جبکہ باقی 40 ختم، مسترد یا واپس لی گئیں۔
یوں 16ویں سندھ اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال میں قانون سازی کے لحاظ سے مجموعی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی۔
اجلاسوں کی صدارت اسپیکر سندھ اسمبلی سید اویس قادر شاہ، ڈپٹی اسپیکر انتھونی نوید اور پینل آف چیئرمین کے مختلف ارکان نے مختلف مواقع پر کی۔ تاہم بیشتر اجلاسوں کی صدارت خود اسپیکر سید اویس قادر شاہ نے کی۔
سندھ اسمبلی کے پہلے پارلیمانی سال کے دوران گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اجلاسوں میں احتجاج یا ہنگامہ آرائی نہ ہونے کے برابر رہی، اور بیشتر اجلاس پُرامن ماحول میں منعقد ہوئے۔ قائد حزب اختلاف علی خورشیدی کی قیادت میں اپوزیشن نے کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، تاہم آخری دو اجلاس قدرے ہنگامہ خیز رہے۔
موجودہ سندھ اسمبلی کے حوالے سے پارلیمانی رپورٹرز و سینئر صحافی محمد منیر الدین، محمد منیر ساقی اور صلاح الدین علی کا کہنا ہے کہ اگر 2002ء سے 2023ء تک کی اسمبلیوں کی کارکردگی کو مدنظر رکھا جائے تو موجودہ سندھ اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال قانون سازی سمیت مجموعی طور پر بہتر رہا ہے، تاہم اپوزیشن کو تقسیم در تقسیم کے سلسلے کو ختم کرکے ایک مضبوط، مربوط اور متحد کردار ادا کرنا ہوگا۔
