خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں 14 سے 16 اگست تک بارشوں اور سیلاب شدید نقصانات ہوئے ہیں، اطلاعات کے مطابق 48 گھنٹوں 300 سے زائد افراد جاں بحق، 148افراد زخمی اور ہزاروں افراد کلی یا جزوی متاثر ہوئے ہیں۔ مکانات، کھیتوں اور مال مویشیوں کے نقصان سے دوچار ہوئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں سڑکیں اور رابطے کے ذرائع تباہ ہونے سے امدادی کارروائیاں مشکل ہوگئی ہیں۔ تینوں حکومتوں کا کہنا ہے کہ نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے، امدادی سرگرمیوں کے دوران باجوڑ میں ایک ہیلی کاپٹر بھی حادثے کا شکار ہوا اور دو پائلٹوں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے۔
مقامی عوام اور میڈیا نمائندوں کا کہنا ہے کہ اکثر وہ علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں جہاں جنگلات کی کٹائی حالیہ برسوں میں زیادہ ہوئی ہے یا وہ گلشئیرز کے قریبی علاقے یا گزشتہ کئی دہائیوں سے سیلاب کے خطرات نہ ہونے کی وجہ سے ندی نالوں کے قریب بسائی گئی بستیاں تھیں۔ بیشتر مقامات پر بادل پھٹنے (کلائوڈ برسٹ) سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔
اسباب!
اس تباہی کا اسباب جاننبے کی کوشش کریں تو محکمہ جنگلات کی غلفت، ٹمبر اور بوٹی مافیا کا کردار ماحولیاتی تبدیلیوں کا اہم ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کا 12 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے جب پاکستان بنا تھاتو اس اس کا مجموعی 6 فیصد رقبے پر جنگلات موجود تھے تاہم اکنامک سروے 2024ء کے مطابق اب ہر سال اوسطاً 27 ہزار ایکڑ رقبے پر جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے جس کے بعد ہمارے جنگلات کُل ملکی رقبے کے 4.5 فیصد رقبے تک محدود ہو چکے ہیں۔
مقامی میڈیا نمائندوں کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے زیادہ متاثرہ وہ علاقے ہیں جہاں جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہوئی، یا وہ بستیاں ہیں جو گلیشیائی جھیلوں اور پہاڑی ندی نالوں کے کنارے آباد کی گئیں۔ ان علاقوں میں کئی دہائیوں سے بڑے سیلاب نہ آنے کے باعث لوگ محفوظ تصور کر کے آباد ہوگئے، مگر اب بدلتے موسمی حالات میں وہ براہِ راست خطرے میں ہیں۔
ماہرین!
ماہرین کے مطابق اس آفت کو صرف قدرتی حادثہ قرار دینا درست نہیں۔ یہ دراصل بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی بے احتیاطیوں کا نتیجہ ہے۔ عالمی تحقیقی ادارہ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن (WWA) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق برصغیر میں اب ہونے والی شدید بارشیں ماضی کے مقابلے میں اوسطاً 15 سے 20 فیصد زیادہ طاقتور ہوچکی ہیں۔
اسی طرح آئی پی سی سی (IPCC) کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کو اُن خطوں میں شمار کرتی ہے جو مستقبل میں سب سے زیادہ غیر متوقع اور تباہ کن موسمی حالات کا سامنا کریں گے۔ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سیلابی آفات کی شدت اور تکرار میں نمایاں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے۔
قدرتی آفات!
پاکستان میں قدرتی آفات کی شدت میں اضافہ صرف بارشوں کی وجہ سے نہیں بلکہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی، بغیر منصوبہ بندی کے آباد کاری اور ماحول کی آلودگی صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ کسی بھی بہترین ماحولیاتی علاقے میں یا ملک میں 25 فیصد حصے پر جنگلات کا ہونے چاہئے، جبکہ پاکستان میں 4.8 فیصد رقبے پر جنگلات ہیں۔
گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق 2001 سے 2024 کے دوران پاکستان نے 9.53 ہزار ہیکٹر جنگلات کا رقبہ کھو دیا، جو 2000 میں موجود کل جنگلی رقبے کا کا 1.4 فیصد بنتا ہے۔ اس نقصان کے باعث تقریباً 2.76 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی اخراج بھی ہوا۔ جنگلات نہ صرف بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ وہ لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے کٹاؤ کو بھی روکتے ہیں۔ جب درخت کٹ جاتے ہیں تو پہاڑی ڈھلوانیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں اور بارش کا ہر ریلہ بستیاں بہا لے جاتا ہے۔
جنگلات!
صوبہ خبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر حالیہ سیلابی تباہ کاریوں میں کئی مقامات پر یہ مناظر دکھائی دئے کہ سیلابی پانی کے ساتھ کٹے ہوئے جنگلات کی لکڑیاں بڑے بڑے ریلوں کی شکل میں بہہ کر آئی۔ اس حوالے آزاد کشمیر کے نوسری ڈیم میں موجود تاحد نگاہ لکڑیوں کا جال اور گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے مختلف نالہ جات کے مناظر اور صوبہ خیبر پختونخوا میں جنگلات کی کٹائی کے خوفناک مناظر انتہائی سنگینی کی نشاندھی کر رہے۔
جنگلات کی تباہ کاری کے کئی اسباب مثلاً لکڑی کا بطور ایندھن لوگوں کی ضرورت، تعمیراتی مقصد، اسمنگلنگ اور دیگر کئی اسباب ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بالخصوص مذکورہ علاقوں میں درختوں کی کٹائی تو عام ہے ، مگر شجرکاری اور جنگل بچائو مہم پر حکومت اور نہ مقامی عوام و انتظامیہ کی توجہ ہے۔
اقدام
ماہرین اور ماحولیاتی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں یہ آفات مزید شدت اختیار کریں گی۔ تجویز کردہ اقدامات میں شامل ہیں, پہاڑی اور حساس علاقوں میں جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی اور بڑے پیمانے پر مقامی نوع کے درختوں کی شجرکاری۔ وادیوں اور دریائی راستوں میں غیر قانونی تعمیرات ختم کرنا اور محفوظ مقامات پر آباد کاری۔
گلیشیائی جھیلوں کی مستقل نگرانی اور جدید فلڈ وارننگ سسٹمز کا قیام۔ سیلابی علاقوں میں عوامی آگاہی اور مقامی سطح پر ہنگامی منصوبہ بندی۔ گلشئیرز کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدام کرنا باالخصوص پلاسٹک کے استعمال پر پابندی شامل ہے۔
بحران
یہ آفات ایک بار پھر یہ پیغام دے رہی ہیں کہ پاکستان کو محض وقتی امدادی اقدامات سے آگے بڑھ کر پالیسی سطح پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر موسمیاتی تغیرات، جنگلات کے نقصان اور غیر منصوبہ بندی شدہ آباد کاری پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے برسوں میں بارش اور سیلاب صرف قدرتی سانحات نہیں بلکہ ایک بڑے ماحولیاتی بحران کی شکل اختیار کرلیں گے، جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔
