غربت، مہنگائی ، شعور کی کمی اور دیگر گھریلوں مجبوریاں ، صوبہ سندھ میں16 لاکھ سے زائد بچے کم عمری سے ہی محنت مشقت کرنے پر مجبور ہیں ۔ محکمہ محنت سندھ، یونیسیف اور بیورو آف اسٹیٹکس کے اشتراک سے کئے جانے والے سندھ چائلڈ لیبر سروے 2022–2024 کی چونکا دینے والی رپورٹ منظر عام پر آگئی ۔
رپورٹ کے مطابق 16 لاکھ بچوں میں سے نصف سے زائد 10 سے 17 سال کی عمر کے وہ بچے ہیں جو خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں جہاں طویل اوقات، شدید موسم اور غیر محفوظ آلات ان کا مقدر بن چکے ہیں۔
بچوں کے اسکول جانے کی شرح
28 سال بعد ہونے والے جامع سروے کے مطابق محنت کش بچوں کی اسکول حاضری کی شرح صرف 40.6 فیصد ہے جبکہ وہ بچے جو چائلڈ لیبر کا شکار نہیں، ان کی حاضری 70.5 فیصد ہے،جبکہ بچوں کی عمر میں اضافے کےساتھ ساتھ اسکول چھوڑنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے، خاص طور پر 14 سے 17 سال کی لڑکیوں میں جو اوسطاً ہفتے میں 13.9 گھنٹے گھریلو کاموں میں مشغول رہتی ہیں انکے لئے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ محنت سندھ محمد علی شاہ کے مطابق سروے رپورٹ میں یہ بات خوش آئند ہے کہ 1996 کے مقابلے میں صوبے میں چائلڈ لیبر کی مجموعی شرح میں تقریباً 50 فیصد کمی آئی ہے، تاہم اب بھی کئی اضلاع میں صورت حال تشویشناک ہے۔
قمبر شہداد کوٹ میں چائلڈ لیبر کی شرح سب سے زیادہ 30.8 فیصد، تھرپارکر میں 29 فیصد، شکارپور میں 20.2 فیصد، اور ٹنڈو محمد خان میں 20.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ کراچی میں سب سے کم 2.38 فیصد ہے۔
ڈی جی محکمہ محنت محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر غربت سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور غریب گھرانوں میں سے 33.7 فیصد نے کم از کم ایک ایسا بچہ ہونے کی تصدیق کی جو کام پر جاتا ہے ۔20.1 فیصد محنت کش بچوں میں ڈپریشن کی علامات بھی پائی گئیں جو کہ غیر محنت کش بچوں کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ہیں۔