دوستوں ، رشتہ داروں اور عزیزوں کی مالی مدد کریں مگر سمجھ داری کے ساتھ کیونکہ اگر آپ کی دی ہوئی رقم واپس نہ ملے تو آپ کا قیمتی رشتہ خطرے میں بھی پڑ سکتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادھار کو محبت کی قینچی کہا جاتا ہے ۔
ہم سب نے زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی دوست، عزیز یا قریبی فرد کی مالی مدد ضرور کی ہوگی۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ کسی مشکل میں ہو۔ ایسے وقت میں مدد کا ہاتھ بڑھانا ہمارا اخلاقی اور انسانی فرض بھی لگتا ہے۔لیکن یہی مدد بعض اوقات ہمارے لیے پریشانی، الجھن، اور تعلقات میں دراڑ کا باعث بن جاتی ہے۔ خاص طور پر جب کوئی قریبی بار بار قرض مانگے، مگر رقم کی ادائیگی میں زرا سی بھی دلچسپی کا اظہار نہ کرے ۔
ایک امریکی سروے کے مطابق جب کسی کو مالی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں، کریڈٹ کارڈ کا استعمال یا دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لینا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ دوسرے راستے کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔ لیکن ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر قرض واپس نہ کیا جائے تو رشتوں میں تلخی، دوری، اور شرمندگی جیسے منفی جذبات جنم لیتے ہیں۔
ایسی صورتحال سے بچنے کےلئے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اگر کوئی آپ سے بڑی رقم مانگے تو فوراً ہاں نہ کہیں۔سب سے پہلے خود کو سوچنے کا وقت دیں۔ اپنے شریکِ حیات یا گھر والے سے مشورہ کریں۔ اور اسکے بعد اگر فیصلہ ادھار دینے کےحق میں آجائے تو ، رقم دینےسے قبل ہی ادھار کی واپسی کا طریقہ وضح کرلیں کہ یہ رقم کب ، کیسے اور کتنے قسطوں میں واپس ہو گی۔
کوشش کریں کہ یہ معاہدہ تحریری شکل میں ہو ، یہ وقتی طور پر سخت یا معیوب لگ سکتا ہے لیکن بہتر طریقہ یہی ہے ۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی دوست کا مالی ریکارڈ خراب ہو، یعنی وہ پہلے بھی وعدے نہ نبھاتا ہو یا فضول خرچی کرتا ہو تو اسے ہر گز ادھار میں رقم نہ دیں ۔
ماہرِ مالیات میگی بیکر کہتی ہیں کہ دس میں سے نو بار دوستوں کو دیا گیا قرض واپس نہیں آتا۔ جبکہ ایک اور ماہر مالیاتکلونٹس مشورہ دیتے ہیں کہ قرض دیتے وقت ہمیشہ یہ سوچ کر دیں کہ شاید یہ رقم واپس نہ ملے۔ تب آپ کی توقعات حقیقت پسندانہ ہوں گی اور دل کو کم صدمہ پہنچے گا۔