آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے کہا ہے کہ پورے ملک سے ثناء یوسف کے قتل پر سوالات پوچھے جارہے تھے، ملزم کی شناخت کرنا انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔
آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پورے ملک سے آوازیں اٹھائی جارہی تھیں، ٹیموں نے سیلولر ٹیکنالوجی سمیت مختلف ٹیکنالوجی پر کام کیا، 300 فون کالز کا تجزیہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ثناء یوسف کا موبائل فون ملزم اپنے ساتھ لے گیا تھا، ایک چھاپہ فیصل آباد اور 2 چھاپے جڑانوالہ میں مارے گئے، ملزم عمر کو ان چھاپوں کی نتیجے میں گرفتار کیا گیا، ملزم کا والد گریڈ 16 کا ملازم تھا۔
علی ناصر رضوی نے کہا کہ ملزم سے ثناء یوسف کا موبائل فون اور آلہ قتل بھی برآمد کرلیا ہے، ملزم میٹرک فیل اور 22 سال کا لڑکا ہے، ملزم بار بار ثناء یوسف سے رابطہ کر رہا تھا، مقتولہ ملزم کو بار بار رد کر رہی تھی۔
مزید پڑھیں:ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قتل کا مقدمہ درج
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ثناء یوسف کی سالگرہ پر ملزم نے رابطے کی بھرپور کوشش کی، ملزم نے بار بار سیلولر اور فزیکل رابطے میں ناکامی کے بعد قتل کا منصوبہ بنایا، ملزم موبائل ساتھ لے جا کر ثبوت مٹانا چاہتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اندھے قتل کو اسلام آباد پولیس نے 20 گھنٹوں میں ٹریس کیا، ملزم کو ناقابل تردید شواہد کے ساتھ تختہ دار تک پہنچائیں گے، ملزم کو اس وقت فیصل آباد سے اسلام آباد لا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:ٹک ٹاکر ثناء یوسف کو قتل کرنے والے ملزم گرفتار، رپورٹ
آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے کہا کہ ثناء یوسف ملزم کے ناپاک ارادوں کو منع کرتی رہی، ثناء یوسف کے کیس کے بعد اسلام آباد سمیت پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 17 سال کی عمر میں سوشل میڈیا پر ان کا انفلوئنس تھا، ثناء یوسف کو شام 5 بجے ان کے گھر میں قتل کیا گیا، ٹک ٹاکر کو 2 گولیاں لگیں وہ جانبر نہ ہوسکیں، یہ کیس ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، ملزم کی گرفتاری کےلیے 113 کیمروں کی ویڈیوز جمع کیں۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ملزم عمر حیات کو فیصل آباد سے گرفتار کیا، قاتل کی گرفتاری کےلیے 7 ٹیمیں بنائی تھیں۔ واضح رہے کہ ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قتل کا واقعہ گزشتہ روز جی 13 ون میں پیش آیا تھا۔